Wednesday, April 25, 2012

لا اِکراہ فی الدین کی بحث


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بھایئو اور بہنو !
جب بھی کسی کو اسلام کے کسی حکم پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے تو وہ فورا کہ دیتا ہے “ بھائی دین میں زبردستی نہیں “

قرآن کی آیت کو لوگوں نے عمل سے فارغ رہنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جبکہ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں ، جب انہیں اولاد نہ ہوتی تو تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہودی بنا کر یہودیوں کے سپرد کردیں گئے ۔ جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور دین اسلام کے انصار بنے تو ادھر یہودیوں سے جنگ ہوئی اور آخر ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے بچنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کرنے کا حکم جاری فرمایا ۔ اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کیے تاکہ ان انہیں اپنے اثر سے زبردستی مسلمان بنا لیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

“ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت گمراہی سے ممتاز اور روشن ہو چکی۔۔۔۔ الخ“
البقرہ: 256

ایک اور روایت میں ہے کہ انصاری قبیلے بنوسالم بن عوف کے ایک صحابی حصینی رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ ائے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دو لڑکے عیسائی ہیں ، مجھے اجزات دی جائے کہ میں انہیں جبراً مسلمان بنا لوں ، وہ عیسایت سے نہیں ہٹتے ۔ اس پر یہ آہت اتری اور جبراً دین میں داخل کرنے کی ممانعت کردی گئی۔

اس آیت میں یہی بیان ہےکہ کسی کو جبراً دین اسلام میں داخل نہ کرو ۔ اسلام کی حقانیت واضح ہوچکی ہے ، کسی پر زبردستی اور جبرکرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اللہ تعالی جسے ہدایت دے گا اور جس کا سینہ کھلا ہوگا اور آنکھیں اور دل روشن ہوگا وہ خود بخود حلقہءاسلام میں آ جائے گا ۔
ابن کثیر

لیکن لوگوں نے اس آیت کواپنی بد اعمالیوں پر محمول کر لیا ہے ۔ عورت کو اگر بے پردگی سے روکا جائے تو وہ یہی دلیل دیتی ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے ۔ کسی کو نماز کی تلقین کی جائے تو وہ یہی جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قمارباز اور سود خور کا ہاتھ پکڑا جائے تو یہی عذر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اولاد کو دیناوی تعلم ترک کر کے دین کی تعلیم حاصل کرنے کا کہا جائے تو یہی وضاحت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالگرہ اور دوسری کفار سے مشابہت سے منع کیا جائے تو یہی بے بنیاد دلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اس آیت کی من مانی تاویلات ہیں جو درست نہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمت العالمین بن کرآئے اور جن کی شفقت و محبت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا وہ فرماتے ہیں کہ“ جب بچے سات سال کے ہو جایئں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جن دس سال کے ہو جایئں تو (اورنماز نہ پڑھیں ) تو انہیں مارو اوران کے بستر سے الگ کردو “اسی طرح عورت کے پردے ،قماربازی اور سود خوری کے بارے میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تنبیہ موجود ہے.

قاریئن! جس طرح اس زندگی کے گزارے ہوئے شب و روز کو کوئی نہیں روک سکتا اسی طرح موت اٹل ہے ۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے ہم اپنے انجام کا سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ برائی کے ساتھ سمجھوتہ سیدھی راہ (صراط مستقیم ) سے اتنی دور لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے اور شیطان انسان کو جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔

طلحہ عبدالرحمن  “جائزگناہ “ 
عُكاشة

اسلام مغلوب نہیں غالب ہو گا


الإسلام يعلو ولا يعلى (اسلام مغلوب نہیں غالب ہو گا )


(شیخ زبیرعلی زئی حفظ اللہ )


اللہ پر یقین کی حقیقت کمزوری اور مصیبتوں کے دور میں ظاہرہوتی ہے ـ صاحب یقین وہ شخص نہیں جو اسلام کی قوت ، مسلمانوں کے غلبے اور فتح کی خوشخبریوں پر بہت زیادہ خوش ہو جائے ، خوشی سے اس کا چہرہ چمکنے لگے اور دل کشادہ ہو جائے لیکن مسلمانوں کی کمزوری اور مصیبتوں کے وقت سخت پریشان ہو کر مایوس اور ناامید ہو جائے ـ

اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب مصیبتوں اور غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جائیں ـ اسلام دشمن قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں ، شدید تنگی اور مصائب چاروں طرف سے گھیر لیں تو اس کا اللہ پر یقین و ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے ـ وہ ذرا بھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخری فتح مسلمانوں کی ہے اور دین اسلام نے غالب ہو کر رہنا ہے ـ مجاہد کی ہروقت یہی کوشش ہوتی ہے اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب ہو جائے لہذا اس عظیم مقصد کے لئے وہ ہمیشہ صبر و یقین پر کاربند رہتا ہے ـ حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ '' میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :صبرویقین کے ساتھ دین کی امامت حاصل ہوتی ہے ـ پھرانہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی :((وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِ‌نَا لَمَّا صَبَرُ‌وا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ)) سورة السجدة 24 '' اور ہم نے انہیں اپنے دین کی طرف رہنمائی کرنے والے امام بنایا کیونکہ وہ صبر کرتے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں ـ ـ (مدارج السالکین لابن القيم 2/154 منزله الصبر )

انسان کو سب اہم چیز جو عطا کی ہے وہ یقین ہے ـ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ ''((وسلو االله اليقين والمعافاة ,فإنه لم يؤت أحد بعد اليقين خيراً من المعافاة "))اللہ سے یقین اور عافیت (صحت و خیریت ) کی دعا مانگو کیونکہ کسی کو بھی یقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی ـ (ابن ماجة : 3849 وسنده صحيح و صححه ابن حبان ، الاحسان : 948 والحاكم 1/529 ووفقه الذهبي )

یہ امت صرف اس وقت تباہ وبرباد ہو گی جب مسلمان دین اسلام کے لئے اپنی کوشیشیں ترک کرکے عمل کے بغیر ہی شیخ چلی جیسی امیدیں باندھ کر بیٹھ جائیں گئے ـ اللہ ہی عالم الغیب ہے ـ ہمیں کیا پتا کہ کب مدد آئے گی اور کب خیر کا دورہ دور ہو گا ؟ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ہماری امت اللہ کے اذن سے امت خیر ہے ـ اللہ تعالٰی مسلمانوں کی مدد ضرور فرمائے گا اگرچہ اس میں کچھ دیر لگ جائےـ ہمیں معلوم نہیں کہ کون سی نسل کے ذریعے سے اللہ تعالی مصیبتوں کی گھنگھور گھٹائیں دور فرما کر اس امت سربلند کردے گا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا ـ

پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :((لا يزال الله يغرس في هذه الدين غريباً يستعملهم فيه بطاعته إلى يوم القيامة .....)) اللہ تعالی قیامت تک دین اسلام میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اس کی اطاعت کرتے رہیں گئے ـ ابن ماجه ، 8 وسنده حسن و صححه ابن حبان ، الموارد : 88

احادیث نبویہ میں بہت سے خوش خبریاں دی گئی ہیں جن سے یقین اور خوش امیدی میں اضافہ ہوتا ہے ـ اسی میں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ امت مسلمہ کی حکومت مشرق و مغرب تک پھیل جائے گی ـ دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں فتح نہیں ہوئے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے جب یہ علاقے بھی فتح ہو کر ملکِ اسلام میں داخل ہو جائیں گئے ان شاء الله تعالی ـ حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ((إن الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها...))اللہ نے ساری زمین اکٹھی کرکے مجھے دکھائی ـ میں نے تمام مشرق و مغربی علاقے دیکھ لئے ـ بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچ جائے گی جو مجھے دکھایا گیا ہے ـ صحيح مسلم : 2889

جب ہمیں یہ معلوم ہوگیاکہ اسلام نے دنیا میں غالب ہو کر رہنا ہے تو ہم کسی خاص دور میں مسلمانوں کی کمزوری پر کیوں نا امید ہیں؟سیدنا عباسؓ نے فرمایا : ((الإسلام يَعْلُو وَلاَ يُعْلى))" اسلام غالب ہو گا مغلوب نہیں ہوگا-"شرح معاني الآثار للطحاوي 257/3 و إسناده حسن , نیز دیکھئے صحيح بخاري 218/3 قبل ح 1354

رسول کریم ﷺ نے اپنی مبارک زبان سے خوش خبری دی ہے کہ ((ولا يزال الله يزيد , أو قال يعز الإسلام وأهله ، ينقص الشرك وأهله حتى يسيير الراكب بين كذايعنى البحرين . لا يخشى إلا جوراً وليبلغن هذه الأمر مبلغ الليل)) "اللہ تعالی اسلام کو زیادہ کرتا رہے گا اور مشرکین اور ان کے شرک میں کمی آتی رہے گی حتٰی کہ سوار سفر کرے گا تو اسے ظلم کے سوا کچھ ڈر نہیں ہو گا ـ اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ایک دن ایسا آئے گا جب یہ دین وہاں پہنچ جائے گا جہاں یہ ستارہ نظر آتا ہے ـ" حلية الاولياء لابي نعيم 107/6 ، وسنده صحيح ، عمرو بن عبد الله الحضرمي ثقة وثقه العجلي المعتدل وغيره.

معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت پھیلتی رہے گی ـ رسول اللہﷺ نے ایسی خوش خبریاں دی ہیں جن سے ہر ناامیدی ختم ہو جاتی ہے اور مصیبتوں میں پھنسا ہوا ہر مسلمان ثابت قدم ہو جاتا ہے ـ ـ خوشی اور راحت سے دل مطمئن ہو جاتے ہیں ـ ارشاد نبوی ﷺ ہے ـ ((بشر هذه الأمة بالسناء والنصر والتمكين ..... )) اس امت کی سربلندی ، فتح اور (زمین پر) قبضے کی خوش خبری دے دو ـ مسند أحمد 134/5 ح 21223وسنده حسن , ربيع بن انس حسن الحديث )

جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق پر غالب رہے گا ـ اسے مجموعی حیثیت سے نقصان پہنچانے والے ناکام رہیں گئے ـ نبی ﷺ نے فرمایا :((لن بسرح هذه الدين قائما ، يقاتل عليه عصابة من المسلمين حتى تقوم الساعة)) " یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا َ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک دین اسلام کے دفاع کے لیے لڑتی رہے گی ـ صحيح مسلم 1922

اللہ کے نزدیک انسانوں والا پیمانہ اور ترازو نہیں ہے ـ اللہ کا پیمانہ اور ترازو تو مکمل انصاف اور عدل و حکمت والا ہے ـ بے شک بندوں کی کمزوری کے بعد اللہ انہیں قوت بخشتا ہے ـ رسول کریم ﷺ کی حدیث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ـ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ((هل تنصرون و ترزقون إلا بضعفائكم)) " تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے ـصحيح بخاري : 2896

مسلمان کو ہتھکڑیاں پہنا کر گھسیٹا جا رہا ہے وہ زرد وغیرہ رنگوں کے قیدی لباس میں ملبوس ہے ـ دنیا کے کونے کونے میں پیچھا کر کے اسے پکڑا جا رہا ہے ـ اس کے پاس (جدید) اسلحہ نہیں ، وہ فقیر و بے بس ہے ـ اس کی دعا ، نماز اور اخلاص کے ذریعے سے اللہ تعالٰی اس امت کی مدد فرمائے گا چاہے مسلمان جتنے بھی کمزور ہو جائیں ـ جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے ـ ((رب اشعث مدفوع بالأبواب لوأقسم على الله لأبرّه)) بعض اوقات وہ آدمی جس کے بال پراگندہ اور لباس میلا ہے ، دروازے سے دھکے دے کر دور ہٹایا جاتا ہے ـ اگر یہ شخص اللہ کی قسم کھالے تو اللہ اسے پورا فرماتا ہے ـ صحيح مسلم . 2622

آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت اور غلبہ مسلمانوں کے دشمنوں کے پاس ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ اللہ ہی متصرف اور مختارِ کل ہے ، وہ اپنے مومن بندوں سے غافل نہیں ہے ـ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان ہمیشہ مجبور مقہور اور ذلیل رہیں ـ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(( الميزان بيد الرحمن ، يرفع أقواما ويخفض آخرين إلى يوم القيامة)) '' میزان رحمن کے ہاتھ میں ہے ـ وہ قیامت تک بعض قوموں کو اٹھاتا ہے اور دوسروں کو گرادیتا ہے ـابن ماجة :199والنسائي في الكبرى : 7738 وسنده صحيح وصححه ابن حبان : 2419 ، الحاكم535/1 ووافقه الذهبى)

اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کے گر جانے کے بعد ضرور اٹھائے گا بشرطیکہ مسلمان اسے راضی کرنے کے لیے سچے دل سے کوشش کریں ـ ہر صدی میں اللہ تعالی ایسے لوگ پیدا کرکے مسلمانوں کے دلوں میں ایمان قائم کردیا ہے جو خیر میں مسابقت کرتے ہیں ـ اور مصیبتوں کی پروا نہیں کرتے ـ لوگ ان کی اقتداء کر کے اللہ کے دربار میں جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ـ اللہ ایسے لوگ پیدا کر ے گا جو غلطیوں کی اصلاح کرکے لوگوں کو سیدھے راستے پر چلا دیں گئے ـ یہ لوگ ہدایت کی طرف راہنمائی کریں گئے اور کتاب و سنت کی دعوت پھیلا کر دین کی تجدید کریں گئے ـ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(( إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها ))" بے شک اللہ تعالی ہر صدی کے سر پر اس امت کے لیے ایسا انسان پیدا کرے گا جو (قرآن و حدیث کے مطابق ) اس امت کی تجدید ( واصلاح ) کرے گا '' سنن ابي داؤد : 4291 وسنده حسن .

تکلیف ، ذلت اور مغلوبیت ایک دن ضرور دور ہو گی ان شاء اللہ ــ چاہے خیر میں مسابقت کرنے والوں کے ہاتھوں ہو یا مجددین کے ذریعے سے لیکن یہ بات یقین ہے کہ یہ مصیتیں ہمیشہ نہیں رہیں گی ـ اسلام کے سارے دشمنوں سے اللہ کا اعلان جنگ ہے اور جس سے اللہ کا اعلان جنگ ہو اس سے ڈرنے کی ضرورت کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں ان دشمنانِ اسلام کی حکومت ایک دن ختم ہو جائے گی ـ حدیث قدسی ہے : ((من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب ))"جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں ـ صحيح بخاري : 6502

آئیے ! ہم ایک دوسرے کو مصیبتوں پر صبر کی تلقین کریں اور تقدیر کے فیصلے پر رضامندی سے ثابت قسم رہیں ـ ہمیں ناامیدی پھیلانے کی بجائے فتح اور غلبہ ء اسلام کی کی خوش خبریاں پھیلانی چاہیں ـ جو لوگ طویل انتظار کی وجہ سے نحوستوں اور ناامیدی کا شکار ہیں ، ان کی '' خدمت " میں عرض ہے کہ جب صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ سے مصیبتوں اور سختیوں کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : والله ! ((ليمتن هذا الأمر ..... ولكنكم تستعجلون ))"اللہ کی قسم ! یہ کام (غلبہء دین ) پورا ہو کر رہے گا ـ ـ ـ مگر تم جلدی کرتے ہو "صحيح البخاري : 6943

اللہ نے اپنے بنوں سے اس اعتماد و یقین کا مطالبہ کرتا ہے جس کا سیدنا موسی علیہ السلام کی والدہ نے مظاہرہ کیا ـ اللہ نے انہیں حکم دیا کہوَ((أَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْ‌ضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَ‌ادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ))'' اور پھر اگر تجھے اس (موسٰی ) کے بارے میں ڈر لگے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر ـ سورة القصص :7

انہوں نے اسی طرح موسی علیہ السلام کو (صندوق میں رکھ کر ) دریا میں ڈال دیا اور وہ نہ ڈریں اور نہ غم کیا حالانکہ دریا تو چھوٹے سے دودھ پیتے بچے کے لیے خطرناک ہوتا ہے ـ اللہ نے موسی علیہ السلام کو بچا لیا ـ یہ دودھ پیتا بچہ آخرکار اس دور کے سب سے بڑے طاغوت فرعون کے پاس پہنچ گیا جس نے اسے پالا او رپھر یہ بچہ اس کی ہلاکت کا سبب بنا ـ اللہ کی قدرت کے عجائب اس طرح ظاہر ہوتے ہیں ـ

رسول اللہ ﷺ نے تین قسم کے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جن میں کوئی خیر نہیں ہے ـ آپ ﷺ نے فرمایا : ((ثلاثة لا تسأل عنهم ..... ورجل شك في أمر الله والقنوط من رحمة الله ))'' تین قسم کے لوگوں کے بارے میں نہ پوچھو ـــ ایک آدمی جو اللہ کے فیصلے میں شک کرے اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے "البخاري في الأدب المفرد :590 وأحمد 19/6 أح 23943 وسنده حسن وصححه ابن حبان ، الاحسان : 4541 .

اسی لیے جب لوگوں کو شک اور ناامیدی کی بیماری لگ جائے تو وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اس سے توبہ کر کے اللہ پر اعتماد اور اس کی مدد و نصرت کا یقین نہ کر لیں ـ تقدیر پر ایمان وہ بہترین طریقہ ہے جس سے یہ اعتماد ہوتا ہے آخری فتح متقین کی ہو گی ـ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :(( لكن شيء حقيقة وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه )) " ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اس وقت تک حقیقتِ ایمان تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اسے یقین کامل نہ ہو جائے کہ اسے جو مصیبت پہنچی ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی تھی "أحمد 6/441،442 ح 27490 وسنده حسن وأخطأ من ضعفه

مسئلہ توقیتِ مقدرو (تقدیر کا ایک خاص وقت مقرر ہے ) اور اجل ( مقرر وقت ) کا مسئلہ ہے جو نہ تو کسی جلدی کرنے کی وجہ سے مقدم ہوتا ہے اور نہ کسی سستی کرنے والے کی وجہ سے مؤخر ہوتا ہے ـ ایسے مضبوط عقیدے پر بے صبری کا قلع قمع ہو جاتا ہے او ردل مطمئن ہو جاتا ہے کہ آخری انجام و فتح متقین کے لیے ہے ـ اگرچہ امت مسلمہ کی کمزوری کے دور گزر رہی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے ـ اللہ اس پر قادرل ہے کہ گم شدہ عزت او کھوئی ہوئی سرداری دوبارہ لے آئے ـ انسانوں کی یہی شان ہے کہ کبھی بلندی او ر کبھی پستی جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ((مثل المؤمن كالخامة من الزرع تضيئها الريح مرة و تعدلها مرة )) "مومن کی مثال کھیتی کے پودے کی تازہ کلی سے نکلی ہوئی ہری شاخ سے کی طرح ہے جسے ہوا کا کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے ـ بخاري :5643، مسلم : 2810

اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک دن مومن ضرور کھڑا (اور غالب ) ہو گا اور یہی اللہ کی سنتِ کونیہ ( اور فیصلہ ) ہے ـ جب اسبابِ تقدیر پورے ہو جائیں گئے تو ایک دن ضرور ہو گا ان شاء اللہ ـ

امم سابقہ کے بارے میں اللہ کا یہی طریقہ اور قانون جاری رہا ہے ـ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (( عرضت علي الأمم فرأيت النبي ومعه الرهبط والنبي ومعه الرجل والرجلان والنبي ليس معه أحد ...)) " مجھے امتیں دکھائی گئیں ، میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ کچھ لوگ تھے ـ ایک نبی ہے اس کے ساتھ دو آدمی ہیں ـ اور ایک نبی ہے جس کے ساتھ کوئی (امتی ) بھی نہیں ـ ـ ـ " صحيح مسلم : 220

اس کے باوجود دعوت جاری رہی اور ہر زمانے میں جاری رہے گی چاہے جتنی بھی کمزوری ہو جائے ـ کسی نبی پر یہ اعتراض قطعا نہیں ہو سکتا کہ ان کے ذریعے سے کوئی ہدایت یافتہ کیوں نہ ہوا؟ حالانکہ انھوں نے دعوت میں اپنی پوری کوشش کی تھی ـ ہدایت دینا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ـ اس طرح کسی مجاہد پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اسے فتح حاصل کیوں نہیں ہو رہی ـ ؟ حالانکہ وہ اپنی استطاعت اور پوری کوشش سے جہاد میں مصروف رہا ہے-اعتراض صرف یہ ہے کہ ہم نے اسباب کے استعمال میں کمی کی اور کوشش میں کچھ نہ کچھ بخل سےکام لیا ـ باقی اللہ کی مرضی وہ جب چاہے جو چاہے کرتا ہے ـ

جب شہیدوں کویہ خوف ہوا کہ زندہ رہ جانے والے کمزوری کی وجہ سے کہیں جہاد سے پیچھے نہ رہ جائیں تو انھوں نے اپنے رب سے سوال کیا ـ : ہمارے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کو یہ کون بتائیے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتاہے ؟ تاکہ لوگ جہاد سے پیچھے نہ رہیں ـ اور میدان جنگ سے نہ بھاگیں ـ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :أنا أبلغكم عنكم "میں انہیں تمہاری یہ بات پہنچا دوں گا" سنن أبي داؤد : 2520، وهو حديث حسن ، أحمد 266/1، والحاكم 88/2 - 298 والنظر عذاب القبر للبيهقى بتحقيقى : 212 ، ابن إسحاق صرح بالسماع.

رات نے آخر ختم ہو جانا اور روشنی پھیل جائے گی ، خس و خاشاک بہ جائے گا اور زمین میں وہ چیزیں رہ جائیں گی جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہیں ـ اللہ کی تقدیر کا یہ فیصلہ ایک دن برحق ثابت ہو گا کہ آخری فتح متقین ہی کی ہے-

والحمد للہ رب العالمین

کمپوز /پروف ریڈ ـ عُكاشة

(ماخوذمع اضافات و تحقیق از کتاب’’ھٰذہ اخلاقنا‘‘5 جولائی 2006ء)،،،
دیکھئے ـ مقالات از شیخ زبیرعلی زئی جلد 1 ـ