بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھایئو اور بہنو !
جب بھی کسی کو اسلام کے کسی حکم پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے تو وہ فورا کہ دیتا ہے “ بھائی دین میں زبردستی نہیں “
قرآن کی آیت کو لوگوں نے عمل سے فارغ رہنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جبکہ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں ، جب انہیں اولاد نہ ہوتی تو تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہودی بنا کر یہودیوں کے سپرد کردیں گئے ۔ جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور دین اسلام کے انصار بنے تو ادھر یہودیوں سے جنگ ہوئی اور آخر ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے بچنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کرنے کا حکم جاری فرمایا ۔ اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کیے تاکہ ان انہیں اپنے اثر سے زبردستی مسلمان بنا لیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
“ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت گمراہی سے ممتاز اور روشن ہو چکی۔۔۔۔ الخ“
البقرہ: 256
ایک اور روایت میں ہے کہ انصاری قبیلے بنوسالم بن عوف کے ایک صحابی حصینی رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ ائے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دو لڑکے عیسائی ہیں ، مجھے اجزات دی جائے کہ میں انہیں جبراً مسلمان بنا لوں ، وہ عیسایت سے نہیں ہٹتے ۔ اس پر یہ آہت اتری اور جبراً دین میں داخل کرنے کی ممانعت کردی گئی۔
اس آیت میں یہی بیان ہےکہ کسی کو جبراً دین اسلام میں داخل نہ کرو ۔ اسلام کی حقانیت واضح ہوچکی ہے ، کسی پر زبردستی اور جبرکرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اللہ تعالی جسے ہدایت دے گا اور جس کا سینہ کھلا ہوگا اور آنکھیں اور دل روشن ہوگا وہ خود بخود حلقہءاسلام میں آ جائے گا ۔
ابن کثیر
لیکن لوگوں نے اس آیت کواپنی بد اعمالیوں پر محمول کر لیا ہے ۔ عورت کو اگر بے پردگی سے روکا جائے تو وہ یہی دلیل دیتی ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے ۔ کسی کو نماز کی تلقین کی جائے تو وہ یہی جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قمارباز اور سود خور کا ہاتھ پکڑا جائے تو یہی عذر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اولاد کو دیناوی تعلم ترک کر کے دین کی تعلیم حاصل کرنے کا کہا جائے تو یہی وضاحت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالگرہ اور دوسری کفار سے مشابہت سے منع کیا جائے تو یہی بے بنیاد دلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس آیت کی من مانی تاویلات ہیں جو درست نہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمت العالمین بن کرآئے اور جن کی شفقت و محبت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا وہ فرماتے ہیں کہ“ جب بچے سات سال کے ہو جایئں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جن دس سال کے ہو جایئں تو (اورنماز نہ پڑھیں ) تو انہیں مارو اوران کے بستر سے الگ کردو “اسی طرح عورت کے پردے ،قماربازی اور سود خوری کے بارے میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تنبیہ موجود ہے.
قاریئن! جس طرح اس زندگی کے گزارے ہوئے شب و روز کو کوئی نہیں روک سکتا اسی طرح موت اٹل ہے ۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے ہم اپنے انجام کا سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ برائی کے ساتھ سمجھوتہ سیدھی راہ (صراط مستقیم ) سے اتنی دور لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے اور شیطان انسان کو جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔
طلحہ عبدالرحمن “جائزگناہ “
عُكاشة :